انسانی تنوع وطبقاتی تقسیم
کے باوجود اسلام نے تمام بنی نوع انسان کو ایک اور برابر گردانا ہے
اورآدمی آدمی کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا؛
بلکہ بحیثیت انسان ہر ایک کو برابر عزت وشرف سے نوازا ہے۔
اسلامی نقطئہ نظر سے محض رنگ ونسل اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد
پر کسی انسان کو اعلی اور گھٹیا سمجھنا گوارہ نہیں کیا
جاسکتا۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ (سورہ الاسراء ۷۰) نیز
اسلام کی نظر میں سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں،
اِنَّمَا
الْمُومِنُوْنَ اِخْوَةٌ (سورہ حجرات ۱۰) لہٰذا یہ اخوت باہمی اس بات کی
متقاضی ہے کہ کسی کو ذات برادری کی بنیاد پر حقیر
سمجھ کر اور نسب ونسل اور زبان پر تفاخر کر کے صحن اخوت میں اونچ نیچ
کی دیوار حائل نہ کی جائے۔
لیکن زندگی کے ہر شعبوں میں
کیا آج کا مسلمان اخوت باہمی کے اس زریں اور اسلامی اصول
پر کار بند رہتا ہے یا اس کے قدم ڈگمگاتے اور پاؤ ں پھسل جاتے ہیں؛ تو
مشاہدہ یہ ہے کہ بعض مواقع ایسے ہوا کرتے ہیں جہاں دھڑلے سے اس
اصول کی پامالی ہوتی ہے۔ ان میں ایک موقع شادی
بیاہ کا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں اچھے اچھے لوگ بھی ”انما المومنون اخوۃ“ کے پیغام کو بھلا دیتے ہیں
اور صرف اپنے ہی نسب ونسل اور برادری کو فوقیت اور ترجیح
دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
آخر ایسا کیوں، کیا وہ رواج کے تابع ہو کر مجبور ہو جاتے ہیں
یا پھر اپنی شان وشوکت اور فخر و غرور اور کبر ونخوت کے سامنے سپر ڈال
دیتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ وجوہات ان کے خیالات
کی محرک ہوسکتی ہیں۔
بعض برادریاں تو واقعتا ایسی
ہوتی ہیں کہ بلاوجہ اپنی دولت وثروت کو شان وشوکت اور عزت وشرف
کا ذریعہ سمجھ کر فخر وغرور کی زد میں آجاتی ہیں۔
ان کی یہ سوچ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے۔ اسلام نے کسی
بھی صورت میں اِس بات کو قبول نہیں کیا کہ کوئی
اپنے کو باعزت اور دوسروں کو ذلیل وحقیر اور گھٹیا سمجھے۔
دوسرے یہ کہ شریعت میں
ان کے نظریہ کی تا ئید ہو رہی ہو؛ اسی لیے وہ
اس پر مضبوطی سے کا ربند رہتے ہیں۔
ہاں؛ شریعت نے شادی بیاہ
کے موقع پر آپس میں مماثلت، یگانگت، برابری اور کفائت کا اعتبار
کیا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان فکر وخیال،
معاشرت، طرز رہائش اور دینداری وغیرہ میں یکسانیت
یا قربت ہونے کی صورت میں اس کی زیادہ امید
ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتہٴ
نکاح مستحکم ہو۔ بے جوڑ نکاح عموما ًناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی
کے برے اثرات ان دونوں شخصوں سے متجاوز ہو کر دونوں کے گھروں اور خاندانوں تک
پہنچتے ہیں، اس لیے احکام نکاح میں شریعت نے کفائت کی
رعایت کی ہے۔
احناف کے نزدیک نکاح میں
کفائت کا اعتبار نسب، نسل، اسلام، آزادی، مال ودولت، دیانت اور پیشہ
میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری ج ۱/ ص۲۹۰)
یعنی زوجین کے درمیان ذات برادری، دینداری،
مالداری، آزادی اور پیشہ وغیرہ میں یکسانیت
ہونی چاہیے؛ تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
”لَا
تَنْکِحُوْ النِسَاءَ اِلاَّ مِنَ الْاَکَفَاءِ“گویا ذات برادری میں بھی
برابری کا اعتبار شریعت نے کیا ہے۔ علامہ کاسانی نے
اپنی بدائع میں اس کے ثبوت اور معتبر ہونے میں ایک تفصیلی
حدیث پیش کرتے ہو ئے اپنی رائے کا بھی اظہار کیا
ہے، لکھتے ہیں: فماتعتبر فیہ الکفائة أشیاء،
منھا النسب، والاصل فیہ قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش
بعضھم اکفاء لبعض والعرب بعضھم اکفاء لبعض حی بحی، وقبیلة بقبیلة
والمولی بعضھم اکفاء لبعض رجل برجل، لان التفاخر والتعییر یقعان
بالانساب، فتلحق النقیصة بدنائة النسب فتعتبر فیہ الکفائة۔ (بدائع الصنائع ج۲ص ۳۱۹)
چونکہ تفاخر اور عار دونو ں چیزیں نسب کی وجہ سے ہی وجود
میں آتی ہیں اور نسب کا گھٹیا ہونا نقص اور عیب و
شرم کا باعث ہوا کرتا ہے؛ اس لیے نسب میں بھی کفائت کا اعتبار کیا
گیا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ مذکورہ حدیث
یا اس طرح کی اور حدیثوں کو علما ء نے عرب میں کفائت فی
النسب کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ اور وجہ یہ بیان کی
ہے کہ چونکہ عجمیوں نے اپنا نسب ضائع کر دیا ہے اس لیے کفائت فی
النسب کا اعتبار ان میں نہیں ہوگا، عجمی سب کے سب برابر ہیں،
ان میں ذات برادری کو ئی چیز نہیں۔ بعض فقہاء
نے اس طور پر استثنا کیا ہے کہ اگر کوئی عجمی واقعتا ثابت النسب
ہو اور انھوں نے اپنا نسب برقرار رکھا ہو تو پھر ان میں بھی کفائت فی
النسب کا اعتبار ہوگا۔ (درمختارمع الشامی باب الکفاء ة) اور البحر
الرائق میں ہے: الحاصل ان النسب المعتبر ھنا خاص بالعرب
واما العجم فلا یعتبر فی حقھم ولذا کان بعضھم اکفاء لبعض۔ (بحرالرا ئق فصل فی الکفاء ة ج ۳/ص۱۴۱)
تاہم عرف وعادات پر اگر نظر دوڑائی
جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عجمیوں میں بھی بحیثیت
عرف کفائت فی النسب کے معتبر ہونے میں کوئی دورائے نہیں
ہونی چاہیے۔ زندگی کے بہت سے ایسے مسا ئل ہیں
جن میں عرف پر عمل ہوا کرتا ہے۔ جس ملک، جس ریاست اور علاقہ و
بستی کا جیسا عرف ہوتا ہے مسلمانوں کو درپیش بعض مسائل میں
وہاں کے عرف کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ عرف شریعت
کی نص یا مقصد ومصلحتِ معتبرہ سے نہ ٹکرائے، ورنہ فاسد قرار پائے گا؛
جیسے مروجہ جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ کرنا، لڑکیوں کو میراث
سے محروم رکھنا، گروی زمین وغیرہ سے فائدہ اٹھانا، ایسے
رواج کا اعتبار نہیں، یہ فاسد کہلائیں گے۔
چنا نچہ امدا د الفتاوی (ج ۲ص۳۵۵)
میں ایک طویل سوال اور اس کا جواب مذکور ہے، جس میں کفائت
میں عرف کے دخیل ہونے کی فقہاء کرام کی تائید ذکر کی
گئی ہے۔ مختصر عبارت پیش کی جارہی ہے:
سوال: کیا شیخ، سید،
مغل، پٹھان، جولاہا، تیلی، گوجر، جاٹ وغیرہ میں معاملہ میں
اگر چہ کچھ تفریق معتبر نہیں، مگر امور دینی میں
مثلا نکاح وغیرہ میں یہ سب ایک سمجھے جائیں گے یا
کچھ تفاخر کو اس میں دخل ہے؟ زید کہتا ہے کہ شیخ سید کے
سوا سب ایک ذات ہے، کچھ تمیز نہ کرنی چاہیے۔ عمر
کہتا ہے کہ علاوہ شیخ سید دیگر اقوام جو شریف ہیں
مثلا پٹھان مغل، وہ ہم پلہ ہر گز ذلیل قوم مثلا جولاہا تیلی کے
نہیں ہیں۔ نکاح وغیرہ میں سب کا معاملہ ایک
سا نہ ہونا چاہیے۔ اور کفو غیر کفو ہونا علاوہ شیخ سید
دوسری قوموں میں باعتبار پیشہ اور چال چلن دنائت وغیرہ کے
دیکھا جائے گا اور ایسا تفاخر اور چھوٹی قوم سے نکاح وغیرہ
میں عار کرنا شرعا جائز ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں
کون حق پر ہے؟ الخ․․․․․․․․․․․․․․․․․۔
الجواب: اخرج
الدار قطنی ثم البیھقی فی سننھا عن جابر بن عبد اللہ قال
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تنکحو النساء الا من الاکفاء
الحدیث․․․․الخ وفی
فتح القدیر عن الدار قطنی عن ابن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعا الناس
اکفاء قبیلة بقبیلة وعربی بعربی ومولی بمولی
الا حائکا اوحجاما․․․․الخ فی
الدرالمختار وحرفة․․․الخ فی
ردالمحتار۔ ذکر الکرخی ان الکفائة فیھا معتبرة عند ابی یوسف
وان ابا حنیفة بَنَی الاَمْرَ فیھا علی عادة العرب ان
موالیھم یعملون ھذہ الاعمال لا یقصدون بھا الحرف فلا یعیرون
بھا، واجاب ابویوسف علی عادة اھل البلاد انھم یتخذون ذلک حرفة فیعیرون
بالدنی من الصنائع فلا یکون بینھم خلاف فی الحقیقة
(بدائع)․ فعلی
ھذا لوکان من العرب من اھل البلاد من یحترف بنفسہ تعتبر فیھم الکفائة
فیھا وحینئذ فتکون معتبرة بین العرب والعجم، وفی
ردالمحتار بعد الکلام فی التکافو حرفة عن الفتح ان الموجب ھو استنقاص اھل
العرف فیدور معہ۔ (ج۲ص۵۲۷)․․․الخ
مذکورہ بالا عربی عبارتیں ذکر
کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ان روایات حدیثیہ وفقہیہ سے
ثابت ہو اکہ قول عمر کا صحیح ہے اور یہ کہ مبنی اس کا عرف پر
ہے، جس کا حدیث میں بھی اعتبار کیا گیا ہے۔
اور یہ بھی معلوم ہو اکہ باہم عجم میں جو نسباً کفائت معتبر نہ
ہونا فقہاء نے لکھا ہے یہ بھی مقید ہے اس کے ساتھ کہ جب عرف میں
اس تفاوت کا اعتبار نہ ہو، ورنہ ان میں بھی باعتبار نسب وقومیت
کے معتبر ہوگا، کما مر من الاستثناء فی الحدیث
”الا حائکا او حجاما“․․․․․․الخ چنانچہ خود عرب میں باہم باوجود
تشارک فی شرف النسب کے ان ہی عوارض عرفیہ کے سبب بنو باہلہ کو
تکافو سے مستثنیٰ کیا گیا ہے،․․․․․․․․․․․․․․الخ
(امدادالفتاوی ج۲ص۳۵۶)
اس سوال اور جواب سے یہ بات سامنے
آئی کہ شیخ، سید میں نسبا ًکفائت ملحوظ ہوگی اور یہ
لوگ اپنے علاوہ دیگر چھوٹی اقوام میں نکاح کرنے کو عار سمجھیں
تو یہ شرعا جائز ہے، جیسا کہ حضرت تھانوی نے سوال میں مذکور عمر کے قول کی تائید فرمائی
ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس میں اصلا عرف کا
اعتبار کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث سے واضح ہے کہ قریش
آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہونے کے باوجود قریش ہی کا وہ
طبقہ جو حائک یا حجام ہو وہ اس کفاء ت سے خارج قرار دیا گیا۔
اسی طرح انہی عوارض عرفیہ کی بنا پر بنو باہلہ کو تکافو
سے مستثنی کیا گیا ہے۔ پتا چلا کہ عرف ورواج میں جو
خاندان عار اور نقص فی النسب کا باعث سمجھا جاتا ہو اس کے یہاں نکاح
کرنے سے گریز کرنے میں شرعاً کوئی خرابی کی بات نہیں
اور نہ ہی ایسے شخص کو متشدد یا مفتخر فی شرف النسب
گردانا جا سکتا ہے۔
اس لیے شادی بیاہ کے
موقع پر بغیر کسی ہٹ دھرمی اور شدت کے اسلامی اصول ”اخوت
باہمی“ اور کفائت معتبرہ فی النسب کی روشنی میں
اپنے علاقہ کے عرف وعادات کے مطابق نکاح اور دو شخصوں اور خاندانوں کے تعلقات کے
استحکام اور رشتہ کی پائداری کے لیے ایسا قدم اٹھانا بہتر
ہوگا جو ٹھوس ہو اور آگے چل کر شقاق اور تنافر کا باعث نہ بنے۔
$$$
---------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10،
جلد:100 ، محرم الحرام 1438 ہجری مطابق اکتوبر 2016ء